Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں

سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں

بھول جاتے ہیں مت برا کہنا

لوگ پتلے خطا کے ہوتے ہیں

کار کی رفتار اتنی تیز تھی کہ طغرل گیراج سے کار نکال کر سڑک تک لانے کی سعی کرتا بھی تو اس کی نگاہوں سے لمحوں میں اوجھل ہونے والی کار کا تعاقب بے کار ہی ثابت ہوتا۔ پری کے اس فعل نے کہ جس طرح گھر والوں کی عزت پامال کرکے رات کی تاریکی میں فرار ہوئی تھی  طغرل کے غیرت مند خون میں شعلے بھڑک اٹھے تھے۔
پہلی بار وہ اس کیلئے افسردہ ہوا تھا۔ آج سے قبل وہ جان ہی نہ سکا تھا کہ وہ کن حالات سے آج تک نبرد آزما رہی ہے۔ کل جب اس کو معلوم ہوا تھا چچا جان اس کو اس کی نانو کے ہاں ڈراپ کرنے نہیں جائیں گے۔ کس قدر ڈسٹرب ہو گئی تھی۔ ملول اداس اور آزردہ!

پھر آج جو کچھ صباحت آنٹی نے اس کے اور اس کی ماں کے بارے میں کہا  کتنی سنگ دلی اور لاتعلقی سے آنٹی اس کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں  ان کا لہجہ  ان کے الفاظ بہت تکلیف دہ تھے۔
(جاری ہے)

وہ باتیں  وہ نفرتیں اس کیلئے نہ تھیں  جب اسے ازحد ناگواری اور دکھ کا احساس ہوا تو پری کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی؟ کتنا دکھ ہوا ہوگا۔ وہ بے آواز رو رہی تھی  اس کا حوصلہ نہ ہوا کہ رک کر کوئی بول تسلی کے کہہ دیتا  ہمدردی سے اس کے آنسو پونچھ دیتا۔ وہ خاموشی سے وہاں سے آ گیا تھا اور پھر ایک بوجھل سا احساس اس کو خاصا مضطرب کر گیا تھا۔ خاصا وقت گزارنے کے بعد بھی نیند اس کی آنکھوں سے اوجھل تھی۔
وہ سوچ رہا تھا کسی طریقے سے صباحت آنٹی اور پری کے درمیان نفرت کے تعلق کو محبت کے تعلق میں تبدیل کیا جائے لیکن…!

دو رشتوں کے تعلق کو باہم جوڑنے کیلئے بنانے والے پل کی بنیاد پہلے ہی زمین بوس ہو چکی تھی۔

”پری! تم نے اس طرح رات کی تاریکی میں فرار ہو کر اچھا نہیں کیا  تمہیں صباحت آنٹی سے شکایت تھی  چچا جان سے گلے تھے  عادلہ  عائزہ سے نازاضگی تھی  ٹھیک ہے میں مانتا ہوں  خود داری اور عزت نفس مجروح ہو  یہ کوئی برداشت نہیں کرتا۔
غصہ آ جاتا ہے  جھگڑا بھی ہو جاتا ہے ایسے میں… مگر یہ سب گھر کے اندر ہوتا ہے  گھر سے فرار تو کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ مسائل کو سلجھانا نہیں الجھانا ہے۔“

وہ ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے واپس آ رہا تھا  گیٹ بند کرتے ہوئے اس کو انداہ ہوا کہ لان کی لائٹس منصوبے کے تحت بند کی گئی تھیں۔ وہ بیڈ پر آکر دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ گیا۔
سوچوں کا ایک طوفان تھا  جس نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

”صبح جب سب کو معلوم ہوگا پری رات کو کہیں چلی گئی ہے تو کیسا کہرام مچے گا  شاید اس کے اس طرح جانے سے صباحت آنٹی پر کوئی اثر نہ ہو  بلکہ وہ خوش ہوں کہ وہ یہی چاہتی تھی کہ پری اس گھر سے چلی جائے۔ چچا جان کا رویہ کس طرح کا ہو گا یہ میں نہیں جانتا۔ مجھے فکر ہے تو دادی جان کی… دادی جان اس خبر کو کس طرح برداشت کر پائیں گی؟ انہوں نے سب سے زیادہ پری سے محبت کی ہے اور کرتی ہیں۔
وہ اس کے بغیر رہ نہیں پائیں گی۔ جانے کہاں ہو گی وہ اور کس کے ساتھ… اگر دادی کو کچھ ہوا تو پری! میں تمہیں شوٹ کر دوں گا۔ تم کہیں بھی ہو  تمہیں ڈھونڈ نکالوں گا۔ نہیں معاف کروں گا تمہیں…“

###

”ماہ رخ! تم وین سے آئی ہو؟“ اس کی کلاس فیلو جویریہ نے اسے وین سے اترتے دیکھ کر حیرانگی سے دریافت کیا۔ ایک تو وین بھری ہوئی ملی تھی  دوسری گرمی کے مارے برا حال تھا اور تیسری مصیبت جویریہ کی صورت میں اس کے سامنے کھڑی تھی۔

”نہیں نہیں میں کار میں آئی تھی  کالج سے ایک اسٹاپ پہلے ہی کار میں کچھ خرابی ہو گئی  ڈرائیور نے کہا بھی بنگلے سے دوسری کار لے آتا ہوں میں نے ہی منع کر دیا کہ تم ٹائم لگاؤ گے  ایک اسٹاپ کی ہی تو بات ہے  میں وین میں چلی جاتی ہوں۔ ذرا ایڈونچر ہی ہو جائے گا۔“ اس کے دماغ کی زرخیزی نے بے حد تیزی سے کام دکھایا۔

”اوہ سویٹ! کبھی کبھی ایسے ایڈونچرز کرتے رہنا چاہئے۔

”آج کیا تم بھی کار میں نہیں آئی ہو؟“ وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھ رہی تھی  کالج کچھ دور تھا۔

”ہاں! آج بھائی کو جلدی جانا تھا  دیر ہونے کی وجہ سے میں یہیں اتر گئی تھی  ان کو کسی فارنر دوست کو ایئر پورٹ سے ریسیو کرنا ہے۔“

”ہاں بھئی! یہ فارنرز بہت وقت کے پابند ہوتے ہیں۔ میرے پپا کے دوستوں میں زیادہ تر فارنرز ہی ہیں۔

مجھے پتہ ہے ان کے مزاجوں کا۔“ وہ بے حد پراعتماد و مطمئن تھی۔

”اوہو! پھر تو تم بہت سے ممالک گھوم چکی ہو گی؟“ جویریہ اس سے خاصی مرعوب دکھائی دے رہی تھی۔ ویسے بھی ماہ رخ کے حسن کے چرچے پورے کالج میں تھے  وہ بی اے کے آخری سال کی طالبہ تھی۔ یہ شہر کا وہ کالج تھا جس میں متمول گھرانے کی لڑکیاں پڑھتی تھیں۔

ماہ رخ جو سبزی فروش کی بیٹی تھی۔
اس کا گھرانا خوش حال لوگوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن وہ آسودہ حال لوگوں میں ضرور شامل کئے جا سکتے تھے۔ وہ شروع سے باپ کی بے حد لاڈلی تھی تو چچا کی اس میں جان تھی۔ سب کی خوشیوں کا مرکز تھی اور اپنی اس قدر و قیمت سے وہ واقف بھی تھی  اس لئے خوب پڑھ چڑھ کر خواہشیں کرنا اور ان کو منوانا اس کی عادت بن چکی تھی۔ ہمیشہ اس نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی اور اب بھی وہ اس کالج میں ضد کرکے ہی آئی تھی۔
یہاں آکر بھی اس نے حسب عادت خود کو ایک بہت امیر و کبیر فیملی سے ظاہر کیا تھا  یہاں آنے تک اپنی بڑی ساری چادر جو وہ گھر سے اوڑھ کر نکلتی تھی اور گھر سے کچھ فاصلے پر آ کر وہ بیگ میں رکھ دیا کرتی تھی۔ رسی نما دوپٹا شانے پر ڈال کر وہ خود کو سنوار کر کالج بڑے اسٹائلش انداز میں پہنچتی تھی۔ اگر گھر کا کوئی فرد اس کو اس حلیے میں دیکھ بھی لیتا تو فوراً شناخت نہیں کر سکتا تھا۔

”اے رخ! تم نے جواب نہیں دیا  بتاؤ! کن کن ملکوں کی سیر کی ہے… کہاں کہاں گئی ہو؟“ اس کو خاموش دیکھ کر جویریہ نے پوچھا۔

”یار! یہی تو گن رہی ہوں کہ کہاں کہاں گئی ہوں۔“

”اوہ میرے خدا! تم نے اتنے ملکوں کی سیر کی ہے کہ تم کو یاد ہی نہیں ہے؟“ جویریہ کے لہجے میں رشک آمیز حیرت تھی۔

”بے شک مائی ڈیئر! اب تو شاید ہی کوئی ملک رہ گیا ہو۔
“ وہ شانے اچکا کر شاہانہ انداز میں گویا ہوئی۔“ جو میں نے دیکھا نہ ہو اور یقین کرو۔ اب پپا مما کہتے بھی ہیں کہ ساتھ چلو گرمیوں کا موسم ہم کسی اور ملک میں گزاریں گے تو میں منع کر دیتی ہوں۔“

”تم تو بہت خوش قسمت ہو رخ…! کاش میں بھی اتنی خوش قسمت ہو جاؤں۔“

###

صفدر جمال نے سگار پیتے ہوئے اپنی نگاہوں کو مثنیٰ کے چہرے پر مرکوز کیا ہوا تھا۔
مثنیٰ چیئر پر بیٹھی سیل پر محو گفتگو تھی  ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ کسی کو کچھ سمجھانے کی سعی کر رہی تھی مگر دوسری جانب کوئی ماننے کو تیار نہ ہوا تو انہوں نے سیل آف کرکے رکھ دیا تھا۔

”کیا ہوا ہے… بہت فکر مند لگ رہی ہیں؟“ صفدر نے پوچھا۔

”وہی سعود کی بے جا اور فضول ضد… جس کی رٹ اس نے کتنی ہفتوں سے لگائی ہوئی ہے۔
“ وہ دونوں ہاتھوں سے کنپٹیاں دباتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”اتنا پریشان کیوں ہوتی ہو یار! وہ جوان ہے اس عمر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ مانو یا نہ مانو  وہ وہی کرے گا جو اس کو کرنا ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ آپ خوشی سے اس کو اجازت دے دیں۔“ سگار کا دھواں خارج کرتے ہوئے وہ نرم مزاجی سے سمجھانے لگے۔

”صفدر! آپ کو معلوم ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“

”جی! میں یہی کہہ رہا ہوں  سعود شادی کرنا چاہتا ہے تو کرنے دیں۔
لومیرج کوئی گناہ کی بات تو نہیں ہے۔ آپ تو یہ بھی اچھی طرح جانتی ہیں۔“ ان کے نرم لہجے میں طنز کی دھیمی سی کاٹ تھی۔ وہ کاٹ جو مرد کی زبان سے کسی تیر کی طرح نکلتی ہے اور عورت کی روح میں پیوست ہو جاتی ہے۔ مثنیٰ بھی تیر کھا کر گھائل تو ہوئی مگر ”آہ“ اندر ہی سسکنے لگی۔

”جی ٹھیک کہا آپ نے…“ وہ مضبوط ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئیں۔
”میں یہ جانتی ہوں  لومیرج کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے… مگر آپ کو معلوم ہے سعود ابھی اسٹڈی کر رہا ہے  اس طرح وہ کیسے اور کس طرح سنبھال سکے گا اپنی پڑھائی اور شادی شدہ زندگی کو…؟“

”پڑھائی اس کی چند دنوں میں مکمل ہو جائے گی۔“

”پھر وہ چند دنوں تک صبر کر لے  ایسا بے قرار کیوں ہو رہا ہے؟“

”اس کو محبت ہو گئی ہے اور یہ اسٹڈی تو صرف ایک وقتی ضرورت یا سٹیٹس سمبل ہے ورنہ میرے بیٹے کو ڈگریوں کی ضرورت نہیں ہے  میری ساری دولت کا اکلوتا وارث ہے وہ…“ صفدر جمال کے لہجے میں اپنی دولت و مرتبے کا فخر و سرشاری تھی۔

”آپ ہر معاملے کو اسٹیٹس سمبل کیوں سمجھتے ہیں؟ آپ کے اس اسٹیٹس سمبل نے سعود کو کتنی برائیوں میں مبتلا کر دیا ہے  یہ معلوم نہیں ہے آپ کو صفدر…! ہر خواہش جائز نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر ضد پوری کی جاتی ہے۔ ہم کتنے ہی مارڈن ہو جائیں اور کتنے ہی آزاد خیال… مگر ہماری اساس  ہماری شناخت ہمارے مذہب سے ہوتی ہے۔ ہم اللہ کو اپنا معبود مانتے ہیں دل و جان سے  پوری صداقت سے ہم اپنے رب کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی عطا کردہ حدود و قیود کے پابند ہیں۔
“ وہ ٹھوس لہجے میں روانی سے کہتی چلی گئیں۔ صفدر جمال نے اٹھ کر سگار ایش ٹرے میں بجھایا۔

”آپ اس قدر مذہبی کب سے ہو گئی ہیں؟“

”میرے خیال میں اتنا مذہبی تو ہر مسلمان ہی ہوتا ہے۔“

”مثنیٰ! حدود اس وقت تک حدود رہتی ہیں جب کہ دوسروں کی خواہشوں کا بھی احترام کیا جائے اور جہاں اپنی منوانے کی ضد پکڑ لی جائے تو… وہ حدود نہیں انتہا پسندی کہلاتی ہے اور میں نہیں چاہتا آپ کی اس انتہا پسندی کی نذر میرے بیٹے کی خوشیاں ہو جائیں۔

”تو کیا آپ سعود کو اس ہندو لڑکی سے شادی کی اجازت دے دیں گے؟“ مثنیٰ نے متوحش انداز میں پوچھا۔

اور جواب میں اک گھمبیر خاموشی چھا گئی!

###

طغرل کیلئے رات کا ایک ایک لمحہ گویا ٹھہر ٹھہر کر گزرا تھا  وہ ایک پل سو نہ سکا تھا۔ عجیب وحشت تھی اور اضطراب تھا۔ وہ کس کو بتاتا رات کے آخری پہر اس گھر کی عزت سیاہ رات کی سیاہی پھیلا کر اس گھر سے فرار ہو چکی ہے… کہاں… اور کس کے ساتھ…؟ یہ سوال ساری رات اس کو ڈستا رہا تھا۔
وہ جانتا تھا بات بے بات  کام ہو یا نہ ہو  دادو کی عادت ہے پری کو پکارنے  اس سے ہر چھوٹے بڑے کام کرانے کی اور جب صبح وہ اس کو گھر میں نہ پائیں گی تو…!

اس سے آگے سوچ کر اس کی سانسیں بند ہونے لگتی تھیں۔

صحرا میں بھٹکتے کسی مسافر کی طرح وہ کمرے میں چکر لگاتا رہا  سوچتا رہا۔

پری کہاں جا سکتی ہے؟ کس کے پاس جا سکتی ہے؟ کون ہے ایسا ہمدرد اس کا؟

وہ سب گھر والوں کے بیدار ہونے سے قبل ہی پری کو اس گھر میں لانا چاہتا تھا۔
بلاشبہ ان دونوں کے تعلقات ایک دوسرے سے ہمیشہ کی طرح آج بھی خراب تھے  اس کی گڈ بک میں آج بھی پری کا نام نہ تھا۔ بے شک وہ کبھی اس کیلئے اتنا فکر مند نہ ہوتا اگر وہ ایسی پست حرکت نہ کرتی تو…! وہ بہت گھٹیا حرکت کر گئی تھی۔ معاً اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اور اسے یاد آ گیا وہ کل پری کو اس کی نانی کے ہاں ڈراپ کرنے گیا تھا۔

وہ وہیں جا سکتی ہے  اس گھر کے علاوہ اس کا اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔
یہ خیال آتے ہی اس کے اندر ایک برق سی دوڑ گئی تھی۔

موسم میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ اس نے جیکٹ پہنتے ہوئے کھڑکی سے باہر نگاہ دوڑائی تھی  ابھی رات نے دھیرے دھیرے اپنا سیاہ آنچل سمیٹنا شروع کیا تھا  کار کی چابی اٹھا کر وہ بہت غیر محسوس انداز میں چلتا ہوا جوتے پہن کر پارکنگ لاٹ میں آیا تو باہر تیزی سے دھند پھیل رہی تھی  جس سے خنکی کا احساس مزید بڑھ گیا تھا  مگر وہ موسم کے اس تیور سے بالکل متاثر نہیں ہوا تھا۔
اس کے اندر جو آگ دہک رہی تھی  یہ خنکی اس آگ کو بجھانے کیلئے قطرے کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کی کا رسڑک پر پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔

صبح ابھی نمودار نہیں ہوئی تھی۔ اکا دکا گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں تھیں۔ وہ بہت جلد پری کی نانو کے بنگلے پر پہنچ گیا تھا  چوکیدار نے اپنے کیبن کی کھڑکی کھول کر اسے دیکھا اور پہچان کر سلام کیا۔

”خان بابا! بیگم صاحبہ سے ملنا ہے۔

”صاب! بیگم صاب تو کل سے شہر سے باہر گیا ہوا ہے۔“ چوکیدار کے جواب نے اس کے اوسان خطا کر ڈالے۔

”کس کے ساتھ…؟ کیا پری بھی تھی ان کے ساتھ؟“ اگلا جواب اس کے ہوش اڑانے کیلئے کسی بم سے کم نہ تھا۔

”نئیں صاب! بیگم صاب اکیلا گیا ہے۔“

”تم نے خود دیکھا ہے؟“ اس کی عجیب حالت تھی۔

”جی صاب! ام نے خود دیکھا ہے اپنا ان گناہ گار آنکھوں سے…“ طغرل کو ساری دنیا گول گول گھومتی محسوس ہوئی۔

   2
0 Comments